اعتزاز احسن کی بیٹی اور جنرل مشرف کی گفتگو
جنرل مشرف صاحب ورلڈ اکنامک فورم کے سلسلے میں وہاں گئے ہوئے تھے۔ اعتزاز احسن صاحب کی بیٹی وہاں ملازمت کرتی ہیں۔ پرویز مشرف نے ان کی بیٹی کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ انکی بیٹی نے پاکستان اپنے والدین سے پوچھا کہ میں جاؤں یا نہیں۔ اعتزاز صاحب نے کہا کہ بیٹا آپ ضرور جائیں۔ اگرچہ ہم تو ان کو صدر نہیں مانتے لیکن باہر تو لوگ ان کو پاکستان کا صدر ہی سمجھتے ہیں۔ وہ آپ کے بزرگ ہیں۔ ان کی بیٹی نے پوچھا کہ ابو کیا میں ان سے آپ کی قید کے بارے میں بات کروں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بات ہر گز نہ کرنا۔ ان کی بیٹی نے پوچھا کہ پھر وہ مجھ سے کیا بات کریں گے؟ اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ آپ کے بزرگ ہیں۔ پاکستانی ہیں۔ وہ خوش ہوں گے کہ آپ نے دیار غیر میں اتنا اچھا مقام حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ آپ سے شفقت کریں گے۔ آپ ضرور ملنے جائیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میری بیٹی ملنے گئی تو جنرل مشرف نے چھوٹتے ہی پوچھا کہWill you start or should I start?
اعتزاز صاحب کی بیٹی پریشان ہو گئیں کہ انکل میں کیا شروع کروں گی۔ آپ ہمارے صدر ہیں۔ میں تو صرف آپ سے ملنے کیلئے آئی ہوں۔ آپ ہی فرمائیں۔ جنرل مشرف کہتے ہیں کہ تمھارا باپ چیف جسٹس افتخار چوہدری، نواز شریف اور خلیل رمدے سے مل کر میرے خلاف سازش کر رہا ہے۔ چیف جسٹس کرپٹ ہے۔ یہ میرے پاس بوگس رسیدیں ہیں 28 ہزار روپے کا پٹرول ڈلوانے کی۔ دکھاؤں تمہیں، دکھاؤں تمہیں؟
اعتزاز صاحب کی بیٹی بے چاری پریشان ہو گئیں اور جنرل مشرف کی ذہنی سطح کو جان کر انہیں سخت افسوس ہوا۔ مشرف کس قسم کا آدمی ہے جس کو اپنی بچیوں سے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔
اعتزاز صاحب نے سہیل وڑائچ کو کہا کہ آپ بتائیں جنرل مشرف کس قسم کا آدمی ہے؟ کتنی petty شخصیت ہے اسکی۔ یعنی چیف جسٹس نے اگر کرپشن کرنی ہے تو وہ 20 ہزار روپے کی کرپشن کرے گا۔ وہ تو ایک ایک کیس سے چار چار کروڑ کما سکتے تھے۔
اعتزاز صاحب نے کہا کہ یہ سب وہ ثبوت تھے جو سپریم کورث کے 15 رکنی فل کورٹ کے سامنے پیش کئے جا چکے تھے اور قطعا رد کئے جا چکے تھے۔ اور جنرل مشرف ان گھٹیا اور گھڑے ہوئے ثبوتوں کو جیبوں میں لئے گھوم رہے ہیں اور سوئٹزر لینڈ میں اعتزاز احسن صاحب کی بیٹی کو دکھا کر اس کو ڈانٹ رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں جنرل مشرف تمام حدود و قیود، تمام اخلاقیات و آداب کو پاؤں تلے روند چکے ہیں۔ انہوں نے قوم کے اربوں روپے بے کار بیرونی دوروں، صدارتی محل کی تزئین و آرائش اور مجرمانہ حد تک غلط معاشی پالیسیوں میں برباد کر دئیے ہیں۔ اور وہ عزت مآب چیف جسٹس کو 20 ہزار روپے کی (وہ بھی من گھڑت) کرپشن کا مرتکب ٹھہرا رہے ہیں؟ انکی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ بحال نہیں ہو سکتی کیونکہ آئین میں اسکی گنجائش نہیں ہے! واقعی 12 اکتوبر 99، اور 3 نومبر 2007 کے آئینی اقدامات کے بعد تو آئین میں عدلیہ کی بحالی کو کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔