ہمیں پاکستانی عوام کی ذہنی سطح کے متعلق کبھی خوش فہمی نہیں رہی لیکن اب تو اردو بلاگرز بھی مایوس کن شعور کا ثبوت دے رہے ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ اس کے سیاستدان نہیں بلکہ بے مہار اور کرپٹ فوج ہے۔ یہ فوج ہے جو ہر منتخب حکومت کو چلنے سے روکتی ہے۔ اور اس کیلئے ایسے مسائل پیدا کرتی ہے جو اس کے اپنے دور میں دور دور تک نظر نہیں آتے۔ فوج صرف پس پردہ چلی گئی ہے لیکن اس نے اقتدار عوام کو نہیں دیا۔ یہ آصف زرداری نہیں بلکہ جنرل اشفاق کیانی ہے جس نے میر شکیل الرحمن کو فون کیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو فوج پر بات کرنے سے روکا جائے۔ پاکستان کی کرپٹ اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا فوج کی سیاست میں مسلسل مداخلت اور پیہم ریشہ دوانیوں نے آج اس ملک کو جہنم بنا دیا ہے۔ آج پاکستان کے تمام سابق کرپٹ جرنیل اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ سیاستدانوں کو فوج کی مرضی کے مطابق چلانے میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔
فوج کی مداخلت اور سازشیں نہ ہو تو ہمیں یقین ہے کہ آصف زرداری جیسا ہسٹری شیٹر اورثابت شدہ مجرم بھی عوامی مینڈیٹ کے بل بوتے پر اس ملک کو چلا سکتا ہے۔ اور فوج کی مداخلت اور گندی سازشوں پر ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر بھی اس ملک کو نہیں چلا سکتا۔
اپنے دشمنوں کو پہچانئے۔ یہ فوج ہے جو ہمیشہ جاہل مولویوں کو استعمال کر کے اور اسلام کا نام استعمال کرکے منتخب حکومتوں کا تختہ پلٹتی ہے۔ جو دو تہائی اکثریت والے نوازشریف کو قلعوں کے عقوبت خانوں میں پھینکتی ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارے ٹی وی ڈراموں میں معاشرے کے ہر طبقہ کو ذلیل اور بے عزت کیا جاتا ہے۔ پولیس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے، ڈاکٹروں کو ڈاکو دکھایا جاتا ہے، سول بیورو کریسی پر تنقید کی جاتی ہے اور بے چارے سیاستدان تو ہمہ وقت ذلت کا نشانہ بنتے ہیں۔ لیکن فوج ایک مفدس گائے ہے۔ کسی ڈرامہ میں میں آپ نے پاکستان کے کرپٹ ترین ادارے یعنی پاکستانی فوج کی بد عنوانیوں پر کچھ نہیں دیکھا ہوگا۔ حالانکہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب کے مطابق پاکستانی فوج نہایت بری طرح سے کاروباری سکینڈلز میں لتھڑ چکی ہے۔ پاکستانی فوج کھاد کی ملیں لگا رہی ہے، بندرگاہوں میں کھربوں کی کمرشل سرمایہ کاری کر رہی ہے، ڈیفینس ہاؤسنگ سکیموں کے ذریعے عوام سے کھربوں روپے ہتھیا رہی ہے۔ اسے کے علاوہ منتخب حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر دوسرے ملکوں پر چڑھ دوڑتی ہے۔ غریب مزارعین کے قتل عام میں ملوث ہے۔ یہ سورما مشرقی پاکستانی کی لاکھوں بہنوں کی عصمت دری کے، اقوام متحدہ کے مطابق ثابت شدہ مجرم ہیں۔ یہ اپنے پاکستان میں لاچار لڑکیوں کی عزت لوٹنے سے باز نہیں آتے (ڈاکٹر شازیہ خالد کیس)، یہ انٹرنیشنل سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حمل میں ملوث ہیں۔ یہ سپاہی کے نام پر غریب پاکستانیوں کو عیاش افسروں کے زر خرید غلام بنانے کے گھناؤنے کام میں ملوث ہے۔ ہر سال پاکستان کی کھربوں کی زمین پاکستانی فوج کے ریٹائر ہونے والے افسروں کو ریوڑیوں کی طرح بانٹ دی جاتی ہے۔ ہر سال یہ عفریت بجٹ میں سے عوام کی خون پسینے کی کمائی کے اربوں ڈالر اپنے ناجائز تسلط کے بل بوتے پر لوٹ لیتا ہے۔ وہ اربوں ڈالر جو عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ ہونا تھے۔ تمام ریٹائرڈ کرپٹ فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ اس کرپٹ فوج نے بدقسمت عوام کو یہ تربیت دی ہے کہ اصول وغیرہ کچھ نہیں ہوتے۔ جس کے پاس طاقت ہے حکم اسی کا چلے گا۔ اسی تربیت کا شاخسانہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود ہر ڈرامہ میں، ہر کامیڈی پروگرام میں، ہر مذاکرے میں تذلیل صرف سیاستدان کی ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ فوج کے اس ناجائز اقتدار کو خطرہ صرف سیاستدانوں سے ہے کیونکہ وہ عوام کی حکومت کی بات کرتے ہیں۔
فوج نے منتخب حکومت کو ایک مرتبہ پھر اندرون خانہ سازشوں سے مفلوج کر دیا ہے اور پاکستان کی بے وقوف عوام سیاستدانوں کو برا بھلا کہنا شروع ہو گئی ہے۔ دوسری طرف فوج نے وہ تمام رستے بند کر دئے ہیں جہاں سے اس کے گھناؤنے کردار پر تنقید کی جا سکتی تھی۔
پاکستانی فوج ویسے بھی اس گندے جوڑ توڑ میں بہت مہارت حاصل کر چکی ہے۔ وہ بیلوں والی کہانی کے مطابق پہلے آصف زرداری کو ذلیل کر کے ہماری نظروں سے گرائے گی اور اس کے بعد نواز شریف کا کوئی بندوبست کرے گی۔
جب تک پاکستانی فوج کے تمام بیمار ذہنوں کو سخت سزائیں دے کر ان کے دماغوں سے اقتدار کا خناس نہیں نکالا جاتا، اس وقت تک عوامی حکومت کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے ناممکن نہیں تو دورازکار ضرور ہیں۔