جیو کی بحالی، دعوے اور حقیقت
جیو کل سے پاکستان میں کیبل پر بحال ہو رہا ہے۔ جنگ گروپ کے اخبارات میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیو نے تنہا آزادی صحافت کی جنگ لڑی ہے اور سرخرو ہو کر نکلا ہے۔ اس موقع پر ہمارے ذہن میں چند سوالات ہیں جو ہم اس حوالے سے قارئین کے سامنے رکھنا چاہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان سوالات کا غیر مبہم جواب دیے بغیر جیو کے یہ دعوے بالکل بے بنیاد ہیں۔
1. کیا جیو نے پیمرا ترمیمی آرڈیننس مجریہ2007 پر دستخط کر دئیے ہیں؟ اگر کر دئیے ہیں تو ان دعووں سے پاکستانی مظلوم عوام کو بے وقوف بنانے کا آخر کیا مقصد ہے؟
2. جیو نے پابندی کے ان دو مہینوں میں عوام میں مقبول ترین پروگرام "میرے مطابق"کو کیوں بند کئے رکھا جس پر کہ حکومت کو اعتراض تھا؟ کیبل پر تو جیو بند تھا لیکن سیٹلائٹ اور ویب پر تو جیو پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے باوجود اس پروگرام کو بند کر کے آخر جیو یہ دعوی کیسے کر سکتا ہے کہ وہ آزادئ صحافت کی جنگ کا سپاہی ہے؟
3. جن صحافیوں پر حکومت کو اعتراض تھا ان پر جیو کے دروازے تقریبا بند ہیں۔ ان میں ڈاکٹر شاہد مسعود، انصار عباسی، شامل ہیں۔ ان لوگوں کو منظرعام سے ہٹا کر آخر ہم اس بات پر کیسے یقین کریں کہ جیو نے حکومت سے یہ بحالی لڑ کر نہیں بلکہ مانگ کر اور گڑگڑا کر حاصل کی ہے؟
4. کیا جیو عوام کے سامنے اس بات کے ثبوت پیش کر سکتا ہے کہ ان گزشتہ دو مہینوں میں حکومت تو پیمرا آرڈیننس پر دستخط کے بعد جیو کو بحال کرنے پر تیار تھی لیکن جیو آزادئ صحافت کو یقینی بنائے بغیر حکومت کی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکاری تھا؟
اگر جیو نے یہ بحالی واقعی لڑ کر حاصل کی ہے تو اوپر دئیے گئیے سوالات کے جوابات دینا اس کیلئے مشکل نہ ہو گا۔ دوسری صورت میں اسے صحافت، انسانی حقوق اور آئین کی بالادستی جیسے اعلی اصولوں سے کوئی نسبت نہیں ہے اور بہتر ہوگا کہ جیو اس کو کاروبار ہی سمجھے اور عوام کے سامنے اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کرنے سے اجتناب کرے۔
1. کیا جیو نے پیمرا ترمیمی آرڈیننس مجریہ2007 پر دستخط کر دئیے ہیں؟ اگر کر دئیے ہیں تو ان دعووں سے پاکستانی مظلوم عوام کو بے وقوف بنانے کا آخر کیا مقصد ہے؟
2. جیو نے پابندی کے ان دو مہینوں میں عوام میں مقبول ترین پروگرام "میرے مطابق"کو کیوں بند کئے رکھا جس پر کہ حکومت کو اعتراض تھا؟ کیبل پر تو جیو بند تھا لیکن سیٹلائٹ اور ویب پر تو جیو پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے باوجود اس پروگرام کو بند کر کے آخر جیو یہ دعوی کیسے کر سکتا ہے کہ وہ آزادئ صحافت کی جنگ کا سپاہی ہے؟
3. جن صحافیوں پر حکومت کو اعتراض تھا ان پر جیو کے دروازے تقریبا بند ہیں۔ ان میں ڈاکٹر شاہد مسعود، انصار عباسی، شامل ہیں۔ ان لوگوں کو منظرعام سے ہٹا کر آخر ہم اس بات پر کیسے یقین کریں کہ جیو نے حکومت سے یہ بحالی لڑ کر نہیں بلکہ مانگ کر اور گڑگڑا کر حاصل کی ہے؟
4. کیا جیو عوام کے سامنے اس بات کے ثبوت پیش کر سکتا ہے کہ ان گزشتہ دو مہینوں میں حکومت تو پیمرا آرڈیننس پر دستخط کے بعد جیو کو بحال کرنے پر تیار تھی لیکن جیو آزادئ صحافت کو یقینی بنائے بغیر حکومت کی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکاری تھا؟
اگر جیو نے یہ بحالی واقعی لڑ کر حاصل کی ہے تو اوپر دئیے گئیے سوالات کے جوابات دینا اس کیلئے مشکل نہ ہو گا۔ دوسری صورت میں اسے صحافت، انسانی حقوق اور آئین کی بالادستی جیسے اعلی اصولوں سے کوئی نسبت نہیں ہے اور بہتر ہوگا کہ جیو اس کو کاروبار ہی سمجھے اور عوام کے سامنے اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کرنے سے اجتناب کرے۔