بے نظیر کی بے فائدہ موت
ایک انسان کے بہیمانہ قتل پر افسوس اپنی جگہ لیکن ہر پہلو سے دیکھنے پر بے نظیر کی ناگہانی موت ہمیں ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی نظر آتی ہے۔ انہوں نے ایک آمر سے ڈیل کے ذریعے چور رستے سے اقتدار میں آنے کی کوشش کی۔ ان کی اپنی پارٹی کے ساتھیوں نے ان کو آگاہ کیا کہ پرویز مشرف ایک بہت ناقابل اعتبار شخص ہے۔ اپنی صدارت کی توسیع حاصل کرنے کے بعد اس سے کسی وعدہ کے وفا رکھنے کی امید رکھنا حماقت ہو گی۔ لیکن بے نظیر کو نہ جانے کیوں ہر قیمت پر اقتدار چاہئیے تھا۔
میثاق جمہوریت توڑنے سے لے کر، اے آر ڈی میں عدم شرکت، مشرف سے سالوں خفیہ مذاکرات، دبئی میں خفیہ ملاقات اور اس کا کھلا انکار، عدلیہ کی پشت میں چھرا گھونپنا، نام نہاد انتخابات کو قبول کرنا، غرض ایک فہرست ہے ان کے غلط اقدام کی جن کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑی۔
ہمارے خیال میں بے نظیر کے ناحق خون سے پرویز مشرف ، پاکستانی فوج اور اسکی خفیہ ایجنسیوں نے ہاتھ رنگے ہیں۔ بے نظیر اور نواز شریف کا غیر اعلانیہ سمجھوتہ پرویز مشرف کی بے بنیاد اور سفاک آمریت کے انجام کی نوید تھا۔ ان الیکشنز میں جمہوری قوتوں کی کامیابی کی صورت میں پرویز مشرف کیلئے بے نظیر کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کر کے جمہوریت کا راستہ روکنا ناممکن ہو جاتا۔ اسلئے اس نے طاقت کے ذریعے ہر مسئلہ حل کرنے کی اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے بے نظیر کو اپنے راستے سے ہٹا دیا۔
بے نظیر اگر نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ مل کر اپنا سارا وزن عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں ڈالتیں تو نہ صرف عدلیہ بحال ہوتی، مشرف سے ملک کی جان چھٹتی بلکہ شاید وہ تیسری بار وزیراعظم بھی بن جاتیں۔ لیکن انہوں نے پاکستانی عوام اور پاکستانی عدلیہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے مشرف اور امریکہ کے ساتھ ساز باز کرنے کو ترجیح دی جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔
ہمارا پختہ یقین ہے بے نظیر کے قتل میں کوئی دہشت گرد گروہ ملوث نہیں ہے بلکہ یہ اسی گھناؤنے کھیل کا تسلسل ہے جو پاکستانی فوج کے جرنیل اس بدقسمت ملک پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کی حدود میں تمام دہشت گرد اور جہادی گروہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں، پاکستانی فوج اور یہ ایجنسیاں غریب پاکستانیوں کو لے کر مذہب کے نام پر ان کا برین واش کرتی ہیں اور پھر اپنے مذموم مقاصد جن میں خودکش حملے بھی شامل ہیں، میں استعمال کرتی ہیں۔
پاکستان کی بقا کا واحد رستہ خالص جمہوریت، عدلیہ کی آزادی، عوام کی تعلیم اور فوج کے بیرکوں میں محدود رہنے میں پوشیدہ ہے۔
میثاق جمہوریت توڑنے سے لے کر، اے آر ڈی میں عدم شرکت، مشرف سے سالوں خفیہ مذاکرات، دبئی میں خفیہ ملاقات اور اس کا کھلا انکار، عدلیہ کی پشت میں چھرا گھونپنا، نام نہاد انتخابات کو قبول کرنا، غرض ایک فہرست ہے ان کے غلط اقدام کی جن کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑی۔
ہمارے خیال میں بے نظیر کے ناحق خون سے پرویز مشرف ، پاکستانی فوج اور اسکی خفیہ ایجنسیوں نے ہاتھ رنگے ہیں۔ بے نظیر اور نواز شریف کا غیر اعلانیہ سمجھوتہ پرویز مشرف کی بے بنیاد اور سفاک آمریت کے انجام کی نوید تھا۔ ان الیکشنز میں جمہوری قوتوں کی کامیابی کی صورت میں پرویز مشرف کیلئے بے نظیر کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کر کے جمہوریت کا راستہ روکنا ناممکن ہو جاتا۔ اسلئے اس نے طاقت کے ذریعے ہر مسئلہ حل کرنے کی اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے بے نظیر کو اپنے راستے سے ہٹا دیا۔
بے نظیر اگر نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ مل کر اپنا سارا وزن عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں ڈالتیں تو نہ صرف عدلیہ بحال ہوتی، مشرف سے ملک کی جان چھٹتی بلکہ شاید وہ تیسری بار وزیراعظم بھی بن جاتیں۔ لیکن انہوں نے پاکستانی عوام اور پاکستانی عدلیہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے مشرف اور امریکہ کے ساتھ ساز باز کرنے کو ترجیح دی جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔
ہمارا پختہ یقین ہے بے نظیر کے قتل میں کوئی دہشت گرد گروہ ملوث نہیں ہے بلکہ یہ اسی گھناؤنے کھیل کا تسلسل ہے جو پاکستانی فوج کے جرنیل اس بدقسمت ملک پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کی حدود میں تمام دہشت گرد اور جہادی گروہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں، پاکستانی فوج اور یہ ایجنسیاں غریب پاکستانیوں کو لے کر مذہب کے نام پر ان کا برین واش کرتی ہیں اور پھر اپنے مذموم مقاصد جن میں خودکش حملے بھی شامل ہیں، میں استعمال کرتی ہیں۔
پاکستان کی بقا کا واحد رستہ خالص جمہوریت، عدلیہ کی آزادی، عوام کی تعلیم اور فوج کے بیرکوں میں محدود رہنے میں پوشیدہ ہے۔